چلاس

چلاس

خاطرات : امیر جان حقانی

یہ 2011ء کی بات ہے۔ میں والد صاحب کو لے کر ڈاکٹر پہلوان کی کلینک میں داخل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب اُس وقت برادر کریمی کا شائع کردہ میگزین فکر و نظر پڑھنے میں محو تھے۔ کلینک میں رش بھی نہیں تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے شرارتاً جھانک کر دیکھا تو محسوس ہوا کہ وہ میرا ہی مضمون پڑھ رہے ہیں، جو اسی میگزین میں “بابا چلاسی: ایک عظیم شخصیت” کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔
میں نے مسکراتے ہوئے عرض کیا
“یہ کس قسم کا مضمون ہے، ڈاکٹر صاحب؟”
انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر، بڑی بے اعتنائی سے کہا
“بہت اچھا مضمون ہے!”
میں نے فوراً جواب دیا
“یہ مضمون میں نے لکھا ہے!”

یہ سنتے ہی وہ فوراً میری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا
“تم کہاں کے ہو؟”
میں نے جواب دیا
“چلاس کا!”

یہ سن کر ان کے چہرے کی بشاشت یکدم غائب ہوگئی۔ منہ بنا کر دوبارہ سوال کیا
“چلاس کہاں کے ہو؟”
میں نے کہا
“گوہرآباد کا!”

فوراً بولے
“بیوقوف انسان! اگر گلگت میں رہنا ہے تو کبھی اپنے آپ کو چلاسی متعارف نہ کراؤ۔ ہمیشہ دو ٹوک کہو کہ گوہرآباد کا ہوں۔ تم گوہرآباد والوں کی اپنی مستقل تاریخ ہے!
“میں چلاس میں رہا ہوں، وہ رہنے کی جگہ نہیں، انسان خدمت کرتے ہوئے بھی ہمیشہ مشکل میں ہوتا ہے

تب سے آج تک واقعی میں اپنا تعارف گوہرآبادی کے طور پر ہی کروا رہا ہوں۔ اور آج جب چلاس کے حالات دیکھتا ہوں تو مجھے ڈاکٹر صاحب کی وہ نصیحت بالکل سچی لگتی ہے۔ آپ ہی انصاف سے بتائیے، اُس علاقے کے لوگ کس بہتری کی امید کر سکتے ہیں، جہاں معمولی سی بات پر تیر و تفنگ چل پڑے، پتھروں کی بوچھاڑ ہو، گولیاں برسیں، اور ایک لمحے میں انسان کی جان لی جائے؟ اور انسان کو قتل کرنا بہادری سمجھا جاتا ہو اور ہر معزز کی دستار پھاڑنا دلیری ، ایسے میں تف ہی کہا جاسکتا ہے

جہاں قبائلی تعصب اس حد تک بڑھا ہوا ہو کہ کسی کی شخصیت، کردار یا تعلیم سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری سمجھا جائے کہ وہ شین ہے یا یشکن، ڈوم ہے یا کمین، مروچ ہے یا کلوچو یا پھر کشیرو۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسے تعصبات کی ممانعت فرمائی ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ملاحظہ فرمائیں

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ
(الحجرات: 13)

ترجمہ: “اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، بے شک اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔”

مگر یہاں حال یہ ہے کہ تقویٰ کو معیار بنانے کے بجائے قوم، قبیلہ اور برادری کو اصل شناخت اور فخر کا باعث سمجھا جاتا ہے۔ واللہ یہ کام مسجد سے شروع ہوکر دینی اداروں سے ہوتے ہوئے ہر دفتر اور سکول کالج اور بازاروں تک پھیلا ہوا ہے۔ اور اس پر لوگ اترا رہے ہیں ۔

یہاں کے تعلیمی ادارے علم و اخلاق کے گہوارے بننے کے بجائے تعصب، بدتمیزی اور سازشوں کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ پورے شہر میں کوئی معیاری دینی یا عصری تعلیمی ادارہ موجود نہیں۔ پچاس سال پہلے قائم ہونے والا چلاس کا اکلوتا ڈگری کالج آج زوال کا شکار ہو کر تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ریجنل اسپتال کی حالت اتنی خستہ ہے کہ الفاظ اس کی کیفیت بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ پانی، بجلی، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کا نظام بالکل برباد ہوچکا ہے۔

ہر سرکاری ادارے کو روزانہ کی بنیاد پر دیامر کے لوگ ہی لوٹ رہے ہیں۔ علماء کرام بھی اصلاحِ معاشرہ اور تعلیم کی ترقی کے بجائے محض احتجاجی دھرنوں کی سیاست میں مصروف ہیں۔ نبی رحمت صل اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا

“إِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانتَظِرِ السَّاعَةَ”
(صحیح بخاری )

ترجمہ: “جب معاملات نااہل لوگوں کے سپرد کر دیے جائیں تو قیامت کا انتظار کرو۔”

آج یہاں ہر چھوٹا بڑا کام نااہل ہاتھوں میں ہے، اسی لیے ہر طرف ابتری کا راج ہے۔

اشیاء خوردونوش اور دوائیوں تک میں ملاوٹ عام ہے۔ مردوہ بھینسوں کا گوشت تک فروخت ہوتا ہے، پچھلے ایک سال سے میں چلاس میں ہوں، مگر دل یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ جگہ انسان کو جسمانی سے زیادہ ذہنی اذیت دیتی ہے۔ کالج سے ہاؤس اور ہاؤس سے کالج کا سفر تو کر لیتا ہوں مگر غلطی سے بھی بازار جانے کا دل نہیں کرتا۔

روزانہ کوئی نہ کوئی لڑائی، کوئی قتل، کوئی ہنگامہ یا دھرنا ضرور ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے حصے کا تیل آگ میں ڈالنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ مقامی صحافی حضرات بھی اصلاحی کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے قبائلی یا رشتہ دار افسران کی تصویریں اور ویڈیوز شیئر کرکے ان کی کارکردگی کے چرچے کرتے رہتے ہیں۔ یہاں جس افسر کے پاس جتنے اچھے کیمرہ مین اور فیس بک کے لکھاری ہیں، وہ اتنا ہی “پاپولر” ہے۔ مگر افسوس، آج تک کسی میگا کرپشن کی سچی رپورٹ شائع نہیں ہوئی، نہ ہی قتل و غارت اور سودی نظام کے خلاف کوئی سنجیدہ علمی یا ادبی کام سامنے آیا۔

چلاس شہر میں سود کا کاروبار کھلے عام جاری ہے اور کوئی اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا۔ چلاس کالج کے درجنوں لوگ سودی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں اور کرڈوں کے مقروض ہیں، روز ان پر سود چڑھتا ہے اور لوگ گھر تک پہنچ جاتے اور مزید سود چڑھا کر اگلی تاریخ کو پھر حاضر ہوتے ہیں
مگر سماجی و حکومتی سطح پر کوئی روک تھام نہیں۔

اور ہاں فیس بک اور سوشل میڈیا پر افسران اور سیاسی نمائندوں کو اس انداز میں پیش کیا جاتا ہے کہ گویا یہ علاقہ جنت الفردوس کا ٹکڑا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر جہنم کے باسیوں کو بھی چلاس بھیجا جائے تو وہ خوشی سے وہاں جانے کو تیار نہ ہوں گے، کیونکہ جہنم میں

قتل و غارت نہیں ہوگا،

قبائلی تعصب نہیں ہوگا،

کرپشن نہیں ہوگی،

جعلی دوائیاں اور ملاوٹی کھانے نہیں ہوں گے،

تعلیم کے نام پر کھلواڑ نہیں ہوگا،

اداروں کی جعلی بولیاں اور ہوائی اسکیمیں نہیں ہوں گی۔

کوئی کسی کا حق نہیں مار رہا ہوگا ۔
اور وہ سب کچھ نہیں ہوگا جو چلاس میں سرعام ہوتا ہے۔

جہنم میں تو صرف ایک چیز ہوگی
بندے کے اپنے برے اعمال کی سزا!
اور اس سزا کو بھگتنے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ کرم کرے تو انسان جنت میں جائے گا۔

یہاں تو صورت حال اس قدر خراب ہے کہ انسان قرآن و حدیث اور سیرت النبی کے مطالعہ کی روشنی میں جنت کے خواب کو بھی بھول جاتا ہے اور صرف یہی سوچتا رہتا ہے کہ اس خطے کے حالات کب بدلیں گے۔ مگر جب تک ہر شخص اپنے ذاتی مفاد، قبیلہ پرستی اور نااہلی کو چھوڑ کر اجتماعی بھلائی کے لیے کھڑا نہیں ہوگا، چلاس کی یہ “دنیاوی جہنم” کبھی جنت نہیں بن سکتی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں