ڈوبتے شہر اور بستیاں

وطن عزیز میں موجودہ سیلابی ہنگامے کے دوران زیادہ تر گفتگو کا موضوع بڑے شہروں کے رہائشی منصوبے ہیں، جنہیں شروع میں خوبصورت وعدوں اور بڑے خوابوں کے ساتھ بیچا گیا، لیکن حقیقت میں وہ نامناسب جگہوں کے انتخاب، بنیادی ڈیزائن یا تعمیراتی معیار کے مسائل کی وجہ سے بارشوں اور سیلاب میں ڈوب گئے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں ایک پرانا مگر جانا پہچانا شور و غل، اخبارات، ٹی وی اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے، پانی کی بلند آواز سے بھی بلند تر ہے۔ یہ محبت اور شائستگی کی آواز ہرگز نہیں بلکہ الزام تراشی کا بے محابا شور ہے۔ ہر سیاسی جماعت اور ہر فرد کے پاس اپنے مخالفین کے خلاف سیلاب اور اس سے متعلق راز افشا کرنے اور قصے کہانیاں پھیلانے کے ڈھیر ہیں، جو موقع و محل کی مناسبت سے پٹاری سے نکالے جاتے ہیں۔ مگر اصل میں ان کے پس پشت اہم سوالات ہوا میں معلق ہیں : کس نے ان غیر محفوظ رہائشی اسکیموں کی منظوری دی؟ کس نے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ جاری کیے؟ کون سی اتھارٹی اس شہری پھیلائو کو روکنے کے لیے ذمہ دار تھی؟ اور کون اس شتر بے مہار کاروبار میں شریک ہے اور ملزموں کا کھرا کس مسکن کی نشان دہی کر رہا ہے؟سچائی تو یہ ہے کہ صحیح وجوہات اور جوابات دینے کے وقت ان شور و غل مچانے والے سیاسی، متعلقہ محکموں کے افسران اعلی و ادنی ویسے آپس کی بات ہے کوئی ادنی سے ادنی سرکاری اہلکار بھی اپنے سائل کے لئے افسر اعلی ہی رہتا ہے بس، بس چلنے کا موقع ملے، پھر اڑان دیکھنا اور دیگر کھلاڑیوں پر ایک عجیب مفلوجی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ وہی رہنما اور اہلکار جو بے دریغ طاقت استعمال کرتے تھے، اب ان سوالات کے متعلق ہکلاہٹ کا شکار ہیں ؛ ان کے ہونٹ جانتے بوجھتے ہوئے بھی بند ہیں۔ حقائق کو آسان بہانوں کے آگے قربان کر دیا جاتا ہے۔ الزامات ایک لمبی اور پیچیدہ حکومتی احکامات کی زنجیر میں درجہ بدرجہ اوپر سے نیچے منتقل ہوتے ہیں۔ ایک ایسا کھیل بعینہ غریبوں کے مسائل کی طرح، جن کے مقدمات کے کاغذات سرکاری محکموں کے دھول آلود کمروں، میزوں اور بکھری ہوئی فائلوں میں ہمیشہ گھومتے رہتے ہیں اور کبھی حل نہیں ہو پاتے۔ یہ اہلکار اور سیاسی بازی گر اپنی بنیادی اور ابتدائی غلطیوں کو اتنی مہارت سے چھپاتے ہیں کہ عوام کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اور نتائج میں ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔جب بنیادی سوال پوچھا جاتا ہے۔ یہ رہائشی سوسائٹیاں مشروم کی طرح
کیوں پھیلتی گئیں اور ابھی تک پھیل رہی ہیں؟ سرکاری جواب ایک رٹا رٹایا جواب ہے : آبادی میں اضافہ، شہروں کی طرف نقل مکانی اور ہجرت، اور منڈی کی مانگ اہم دلائل اور منطق ہیں۔ ایک لمحے کے لیے تو، بظاہر یہ معقول، تقریبا ناگزیر، جواب لگتے ہیں۔ پھر بھی، اصل میں یہ بات ایک چالاکی کے پردوں میں چھپائی جاتی ہے۔ یہ عوام اور ٹیکس دہندگان کی شہری ترقی کی اتھارٹیز سے جن علمی اور عملی مہارت کی توقع کرتی ہے، اسے چھپایا جاتا ہے۔ یہ ایک دھواں ہے جس کے پیچھے ان کی شدید غفلت، نا اہلی یا زیادہ درستی سے، ان کا جرم لفاظی میں آسانی سے چھپا دیا جاتا ہے۔بلاشبہ، رہائش کی ضروریات حقیقی ہے۔ لیکن پھر بھی لاکھوں کا سوال برقرار ہے : یہ مسلسل، سرطان کی طرح پھیلنے والی افقی وسعت میں تعمیرات ہی آخر کیوں، جب کہ دنیا طویل عرصے سے مکانات کے لیے درکار زمین کی محدود دستیابی کی ٹھوس وجوہات کی بنا پر عمودی پھیلائو کی طرف مڑ چکی ہے؟ یعنی ادھر ادھر پھیلنے کی بجائے اسی سائز کے پلاٹ میں تین چار منزلہ گھر اونچائی کے رخ آسانی سے، کم قیمت اور ماحول دوست بنایا جا سکتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے ہماری سب سے زرخیز زمینوں کو پختہ کرنے اور، ایک حیرت انگیز بے اعتنائی کے ساتھ، دریائوں اور ندیوں کے قدیم راستوں میں مزید ذیلی تقسیم بنانے میں حکمت کہاں ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے کہ پانی ہمیشہ اپنا راستہ واپس لے لے گا، کس اعلی سائنس کی ضرورت ہے؟ ہمیں جوابات کے لیے دور تک دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بنکاک، سنگاپور سے ڈھاکہ تک، وہ ممالک جو کہیں زیادہ آبادیاتی دبائو کا سامنا کرتے ہیں، نے عمودی تعمیر کو اپنایا ہے، ہاں زمین کی ساخت، نوعیت، خصوصیات اور زلزلہ کے حالات کو ضرور مدنظر رکھتے ہوئے اوپر کی طرف تعمیرات کو اپنایا ہے۔ انہی ماڈلز کو دیکھتے ہوئے لاہور اور دیگر شہروں میں ایک آدھ کنال کے پلاٹ کو ایک کثیر منزلہ اور محفوظ آبائی اور خاندانی گھر کے لیے استعمال کرنے کی آزادی کا تصور کریں، جہاں چار خاندان آسانی سے رہ سکیں، اور ایسی تعمیرات بے گھر ہونے کی فکر کے خلاف بھی ایک قلعہ کا کام دے۔ تاہم پھر بھی، اس منطق اور اصول کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔اور افسوس کہ ایسے دیانت دارانہ طریقوں کو عملا رواج نہیں دیا جاتا۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ طریقے منافع اور رشوت کے غیر قانونی دھندا میں ملوث اشرافیہ کے لئے اس زبردست مالی بہائو کو ممکن نہیں بناتے، جیسا کہ مکانات کے لیے متعدد پلاٹوں کے کاروبار میں دیکھنے میں آتا ہے۔ اس کا ایک سادہ سا قاعدہ ہے۔ پلاٹوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی، مالی لین دین کی گردش اتنی ہی وسیع ہوگی۔ اور یہی وسعت رقم کو ناجائز اور غلط طریقوں سے کمانے کے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر دیتی ہے۔ جب دولت اور طاقت کا ایسا گٹھ جوڑ ہو اور انصاف کے ادارے بے بسی کا شکار ہوں تو قانون کا وجود بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ احتساب کا خوف ہی ختم ہو جائے تو پھر قانون کی حیثیت کیا رہ جاتی ہے؟ جب جواب دہی کے بجائے بے بنیاد تاویلیں اور فرسودہ حیلے میدان مار لیں، تو پھر سب سے واضح پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ ہنگامی انکوائریاں اور تحقیقات بھی اس متعفن ذہنیت کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ایک ایسی گہری کھائی جہاں سچائی دفن ہو جاتی ہے اور بدعنوانی راج کرنے لگتی ہے۔یہ جغرافیائی آبادکاری اور بے حسی ایک ایسا قومی ناسور ہے جو ہمارے منصوبہ سازوں کی سوچ پر چھا گیا ہے۔ یہ محض چند غلطیاں نہیں، بلکہ ایک ایسی نظامی بیماری ہے جو ساحلی علاقوں سے لے کر پہاڑی خطوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہر طرف ناقص منصوبہ بندی کے ثبوت نظر آتے ہیں، جیسے کوئی طاعون کی وبا پھیل گئی ہو۔ یہ صورت حال اس قالین کی مانند ہے جس کے نیچے ہماری تمام تر تعمیراتی اور جغرافیائی آبادیات اور سکونت غلطیاں چھپائی جا رہی ہیں، مگر آخرکار یہی غلطیاں ہمارے سامنے سیلاب اور تباہی کی شکل میں نمودار ہو رہی ہیں۔ عظیم دریا سندھ کی تکلیف خوفناک مطابقت کے ساتھ، پنجاب کی رگوں۔ اس کے افسانوی دریائوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جہلم، چناب، راوی، اور ستلج، وہ نام جو ہماری تاریخ میں گونجتے ہیں اور ہماری زمین کو غذائیت بخشتے ہیں، نے اپنے سیلابی میدانوں کو منظم طریقے سے کھویا ہے۔ رہائشی سوسائٹیاں، جو جدید طرز زندگی کا وعدہ کرتی ہیں، لاپرواہی سے اس جگہ بنائی گئی ہیں جہاں دریا کا قدرتی پاٹ وسیع ترین ہونا چاہیے۔ یہی کہانی بیاس دریا اور ان گنت موسمی نالوں کے کنارے بھی دہرائی جاتی
ہے جو مون سون کی زندگی سے لپٹے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ وفاقی دارالحکومت میں، راولپنڈی میں نالہ لئی کا المناک معاملہ اس حماقت کا ایک کھلا ثبوت ہے۔ ایک قدرتی طوفانی پانی کا چینل قبضے سے اٹ گیا، اس کی گنجائش گھٹ گئی، اسے بارش آنے پر ایک زندگی بچانے والے سے ایک قاتل میں بدل دیا گیا۔عوام اور ارباب اختیار کے درمیان الزام اور انحراف کا شور اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بحث مباحثہ کو ایک تھکی ہوئی برابری حاصل نہیں ہو جاتی۔ عوام، چلانے اور تکلیف سے تھک کر، محض اپنے کان بند کر لیتی ہے۔ اور دوسری طرف ایک پر مرگ خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ گویا یہ تباہی قسمت کا ایک قدرتی عمل تھی، نہ کہ انسانی ساختہ آفت۔ یہ حماقت صرف شہری ہی نہیں ہے۔ دیہی علاقوں میں بھی، کہانی ایک جیسی ہے۔ زمین کی زندگی لکیریں۔ ان پر غیرقانونی قبضہ کر لیا گیا، ان کے پانی کے راستوں اور نکاسی آب کو منظم طریقے سے گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ دریائوں اور ندی نالوں پر غیرقانونی قبضہ کر لیا گیا، انہیں مستقل کھیتوں میں تبدیل کر دیا گیا، یا مستقل بنیادی ڈھانچوں مثلا پکی سرکاری عمارتوں اور پکے رہائشی مکانوں کے نیچے دبا دیا گیا، نتیجتا یہ قدرتی شریانیں اب بند ہیں۔عظیم دریا سندھ پر غور کریں : 1872 کے اول لینڈ سیٹلمنٹ کے تاریخی ریکارڈ اور دستاویزات رقم طراز ہیں کہ میدانی علاقوں میں بہتے ہوئے اس کی قدرتی چوڑائی لگ بھگ 21 کلومیٹر تک تھی۔ یہ اس کا اصل پاٹ تھا، اس کا قدرتی راستہ ہزاروں سالوں میں تبدیل ہوتا تھا۔ اس پر تربیلا ڈیم کی تعمیر کے ساتھ، نچلے علاقوں میں سیلاب سے حفاظت کی جھوٹی اور وقتی سی کیفیت پیدا ہوئی۔ دریائوں کی شدت عارضی طور پر تبدیل ہو گئی، اور آہستہ آہستہ، انچ انچ، لوگ ان کے کناروں پر، ان کے تاریخی راستوں کے اندر، آباد ہونا شروع ہو گئے۔ اس قبضے کو نہ صرف برداشت کیا گیا؛ اسے فعال طور پر سیاسی مقاصد کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی۔ اور یہ سیاسی حکمت عملی آسان تھی: ووٹروں کو راغب کریں، انہیں اسکول، ڈسپنسری، اور سڑکوں سے نوازیں، اور ایک وفادار حلقہ اثر و انتخاب حاصل کریں۔ یہ آبادیاں کالا باغ کے پہاڑوں سے لے کر بحیرہ عرب کے کنارے تک مشروم کی طرح اگ آئیں، ہر صوبے میں بغیر کسی استثنا کے کمزور انسانی آبادی کی ایک پٹی بن دی گئی۔ لوگ بظاہر آرام سے سانس لے رہے تھے، جھوٹی حفاظت کی گہری نیند میں سوئے، یہاں تک کہ دریائوں نے انتقام کے ساتھ جاگ کر سب کو یاد دلایا کہ وہ اپنے سچے اور اصلی راستوں(باقی صفحہ6بقیہ نمبر32)

کو کبھی نہیں بھولتے۔ یہ ایک گہری ستم ظریفی ہے کہ جب موجودہ پاکستان کے خطے میں آبپاشی کا ایکٹ 1879 میں رسمی شکل دیا گیا تھا، تو نکاسی آب کا اہم ایکٹ اس سے بھی پہلے، 1873 میں نافذ کیا گیا تھا۔ اس سے نکاسی آب یعنی ڈرینیج بمقابلہ آبپاشی کی افادیت، اہمیت اور فضیلت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے نوآبادیاتی منتظمین کی دور اندیشی کا ایک ثبوت جنہوں نے سمجھا کہ پانی کا انتظام زندگی کے انتظام کے مترادف ہے۔ ترجیح واضح تھی۔ کیا ہم نے اس حکمت کے لیے آنکھیں کھولی ہیں؟ کیا ہم ماضی کے سیلابوں کے سبق یاد رکھتے ہیں؟ اگر ہم صرف علامات، تباہی کا علاج کرتے رہیں، جب کہ بیماری، بدعنوانی اور ناقص منصوبہ بندی کو نظر انداز کرتے رہیں، تو یہ ہنگامہ ہماری قومی زندگی کی ایک مستقل، المناک خصوصیت بن جائے گا۔ وہی جہالت ہماری نکاسی آب کے نظام ہماری تہذیب کے دل اور رگوں کے جال کو روکتی ہے۔ اگر انسان کے جسم کی نکاسی ناکام ہو جاتی ہے تو نتیجہ مہلک فالج ہوتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے کسی اعلی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اس زمین کی قسمت کا اندازہ لگا سکے جس کی رگیں جمی ہوئی اور شریانیں بند ہیں۔کیا یہ آفت ہمارے ہاں ایک نیا واقعہ ہے؟ تاریخ، جو ایک سخت استاد ہے، تصدیق کرتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ زمین نے تو لاکھوں سیلاب دیکھے ہیں۔ جو چیز اب مختلف ہے وہ واقعہ خود نہیں، بلکہ پہلے ہی مصیبت میں گھری عوام پر اس کا بڑھتا ہوا اثر اور سب سے بڑھ کر ردعمل کی نوعیت ہے۔ آفت سے نمٹنے کی حکمت عملی میں ایک عجیب سی نئی بات آ گئی ہے۔ سیاسی بیانات، جو کبھی شاید فرض شناسی کے انداز میں ہوتے تھے اب احتیاط سے تیار اور نئے سرے سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ تاہم، بنیادی مقصد تو وہی پرانا ہے اور اس طرح سیاسی کھیل محض اپنے طریقہ واردات کو تبدیل کرتا ہے۔ غفلت سے اجازت کا مرحلہ دکھاوے کی ہمدردی کے مرحلے میں بدل جاتا ہے : امداد، خیرات، معاوضہ، اور بحالی۔ پھر بھی، اہل اقتدار میں کوئی بھی بنیادی سوال پوچھنے کی ہمت نہیں کرتا: ہم دریا کے کناروں اور بیچ میں شروع میں کیوں گئے تھے؟ قانون خود ان علاقوں میں مستقل آبادی سے منع کرتا ہے، لیکن قانون کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا گیا تھا۔حتمی فیصلہ حکومت پر نہیں ہے۔ یہ ریاست اور اس کے عوام کے درمیان ایک عہد ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے : کیا ہم بربادی کے اس چکر کو جاری رکھتے ہیں، یا ہم اپنے لیے ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایک پائیدار راستہ بناتے ہیں؟ اگر ہم اسے صرف اہلکاروں اور سیاست دانوں پر چھوڑ دیتے ہیں، تو آفت کا کاروبار پھلتا پھولتا رہے گا۔ ان کے لیے، سیلاب نفع بخش ہے ؛ یہ ایک سیاسی معیشت ہے جہاں سیلابی تباہی آدھے مکمل منصوبوں کے ثبوت کو دھو دیتی ہے، تعمیر نو کے لیے فنڈز کے مسلسل بہائو کو یقینی بناتی ہے جو کبھی بھی ان کی نااہلی اور جرائم کو ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ وہ کبھی بھی سیلابوں سے بچانے کا انتظام کیوں کریں گے جب کہ سیلاب خود ان کی روزی روٹی کا ذریعہ ہیں؟پانی پیچھے ہٹ جائیں گے۔ سوال یہ ہے، کیا سچ کا سامنا کرنے کی ہماری ہمت ان کی جگہ پر اٹھے گی؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں