امریکا میں ایک بار پھر شٹ ڈاؤن شروع، ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں رک گئیں

usa

امریکا میں ایک بار پھر شٹ ڈاؤن شروع ہو گیا جس کے باعث ہزاروں سرکاری ملازمین کے تنخواہوں سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق حکومتی فنڈنگ سے متعلق بل امریکی سینیٹ سے منظور نہ کرایا جاسکا جو امریکا میں شٹ ڈاؤن کا باعث بنا، شٹ ڈاؤن کی وجہ سے کچھ سرکاری اداروں کا کام رک گیا ہے اور ایک اندازے کے مطابق 75 ہزار کے قریب ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بھی رک گئی ہے۔

ڈیموکریٹکس اور ری پبلکنز رہنماؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی سابق نائب صدر کملا ہیرس نے سوشل میڈیا پر لکھا کانگریس سے تعلق رکھنے والے ری پبلکنز نے صرف اس لیے شٹ ڈاؤن کیا کیونکہ انہوں نے عوام کی ہیلتھ کیئر کی رقم بڑھانے سے انکار کر دیا ہے، یہاں یہ بات واضح کر دوں کہ وائٹ ہاؤس، ایوان نمائندگان اور سینیٹ کی باگ دوڑ ری پبلکنز کے ہاتھ میں ہے اور یہ شٹ ڈاؤن بھی ان کا ہی ہے۔

دوسری جانب امریکی ایوان نمائندگان کے ریپبلکن اسپیکر مائیک جانسن نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈیموکریٹکس نے باقاعدہ طور پر حکومت کو بند کرنے لیے ووٹ دیا، جس کے باعث آج بچے اور مائیں نیوٹریشن کی کمی کا سامنا کر رہے ہیں اور سابق فوجی ہیلتھ کیئر اور خودکشی سے بچنے والے منصوبے سے مستفید نہیں ہو رہے، فوجی اور ٹی ایس اے ایجنٹس بھی تنخواہوں سے محروم ہیں۔

واضح رہے کہ امریکا میں اس سے پہلے 19-2018 میں سب سے طویل شٹ ڈاؤن 35 دن تک جاری رہ چکا ہے اور یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ہوا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں