برطانیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے بعد وسطی لندن میں اب برطانیہ میں فلسطین کے سفارت خانے کے باہر فلسطینی پرچم لہرایا گیا۔پرچم کشائی کی تقریب فلسطینی مشین کے باہر ہوئی جسے اب سفارتخانے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔اس موقع پر برطانیہ میں فلسطینی سفیر حسام زملوط نے کہا کہ براہِ کرم میرے ساتھ شامل ہوکر فلسطین کا پرچم بلند کریں، جس کے رنگ ہماری قوم کی نمائندگی کرتے ہیں: سیاہ ہمارے سوگ کے لیے، سفید ہماری امید کے لیے، سبز ہماری زمین کے لیے اور سرخ ہماری قوم کی قربانیوں کے لیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ پرچم فلسطینی عوام کے آزادی اور انصاف کی طویل جدوجہد کے اعزاز میں اور برطانیہ اور دنیا بھر کے ان لاکھوں لوگوں کے اعزاز میں بلند کرتے ہیں جو آزادی سے محبت کرتے ہیں۔اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ پرچم اس عہد کے طور پر بلند کرتے ہیں کہ فلسطین زندہ رہے گا، فلسطین ابھرے گا اور فلسطین آزاد ہوگا۔متعدد عالمی حکام ان ممالک کے ردعمل میں اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام کے پھیلائو سے خبردار کر رہے ہیں جنہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا ہے۔اس سلسلے میں اب جرمن حکومت کے ترجمان نے بھی شامل ہوتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی سرزمین کا مزید انضمام نہیں ہونا چاہیے۔یہ تبصرے ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسند قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر نے کہا ہے کہ وہ کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطین کو ریاست تسلیم کیے جانے کے بعد اگلی کابینہ میٹنگ میں فلسطینی علاقے کے انضمام کا معاملہ اٹھائیں گے۔کچھ عرصہ قبل وزیر خزانہ بیزلیل اسموٹریچ نے مغربی کنارے کے 82 فیصد علاقے کے انضمام کی تجویز پیش کی تھی۔دریں اثنا، برطانیہ کی وزیرِ خارجہ یویٹ کوپر نے کہا کہ انہوں نے اسرائیل پر واضح کر دیا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے ردعمل میں مقبوضہ مغربی کنارے کے انضمام میں توسیع نہ کی جائے۔یویٹ کوپر نے اقوامِ متحدہ کے نیویارک میں منعقدہ ایک کانفرنس میں شرکت سے قبل کہاکہ برطانیہ نے اسرائیلی حکومت پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا فیصلہ اسرائیل اور فلسطینیوں دونوں کی سیکیورٹی کا احترام کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔اسرائیلی وزرا، جن میں دائیں بازو کے انتہا پسند قومی سلامتی کے وزیر ایتامار بن گویر بھی شامل ہیں، نے دھمکی دی ہے کہ وہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے ردعمل میں مقبوضہ مغربی کنارے پر اپنی خودمختاری نافذ کریں گے۔فرانس اور سعودی عرب نیو یارک میں درجنوں عالمی رہنمائوں کو مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کے لیے حمایت حاصل کرنے کے لیے اکٹھا کریں گے، جن میں سے کئی ممالک کی جانب سے باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کرنے کی توقع ہے، یہ ایک ایسا قدم ہے جو اسرائیل اور امریکا کے سخت ردعمل کو دعوت دے سکتا ہے۔ اسرائیل اور امریکا اس سربراہی اجلاس کا بائیکاٹ کریں گے، اسرائیل کے اقوام متحدہ کے سفیر ڈینی ڈینون نے اس تقریب کو تماشا قرار دیا ہے۔انہوں نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ مددگار ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دراصل دہشت گردی کو انعام دینے کے مترادف ہے۔اسرائیلی حکام نے کہا ہے کہ اسرائیل اس کے جواب میں، مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصے کو ضم کرنے اور پیرس کے خلاف مخصوص دو طرفہ اقدامات پر غور کر رہا ہے۔امریکی حکومت نے فرانس سمیت ان ملکوں کے لیے ممکنہ نتائج کی وارننگ دی ہے جو اسرائیل کے خلاف اقدامات کریں گے، فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نیو یارک اجلاس کی میزبانی کر رہے ہیں۔یہ اجلاس اس ہفتے کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے پہلے ہو رہا ہے، اسرائیل کے غزہ شہر پر طویل عرصے سے زیر غور زمینی حملے کے آغاز کے بعد بلایا گیا ہے، اور اس وقت ہو رہا ہے جب جنگ بندی کے امکانات بہت کم ہیں۔اسرائیل کے غزہ پر شدید حملے اور مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے دوران، یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ اب فوری اقدام کیا جائے ورنہ دو ریاستی حل کا تصور ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔جنرل اسمبلی نے سات صفحات پر مشتمل ایک اعلامیہ منظور کیا تھا، جس میں دو ریاستی حل کی جانب ٹھوس، وقت کے پابند اور ناقابل واپسی اقدامات بیان کیے گئے ہیں، ساتھ ہی حماس کی مذمت اور اس سے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔ان کوششوں پر اسرائیل اور امریکا نے فوری ردعمل دیا، انہیں نقصان دہ اور تشہیری حربہ قرار دیا۔فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نوئل برو نے صحافیوں سے کہا تھاکہ نیو یارک اعلامیہ دور مستقبل کا مبہم وعدہ نہیں ہے، بلکہ ایک روڈ میپ ہے جو اولین ترجیحات یعنی جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ رسائی سے شروع ہوتا ہے۔جب ایک بار جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی حاصل ہو جائے، تو اگلا مرحلہ اگلے دن کا منصوبہ ہوگا، جو پیر کی بات چیت کے ایجنڈے پر ہوگا۔فرانس کو امید ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلان سے اس تحریک کو زیادہ تقویت ملے گی، جو اب تک چھوٹے ممالک کی قیادت میں تھی جو عموما اسرائیل پر زیادہ تنقید کرتے ہیں۔برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور پرتگال نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا تھا، فرانس اور مزید پانچ ریاستوں سے توقع ہے کہ وہ باقاعدہ طور پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گی۔کچھ ممالک نے کہا ہے کہ اس میں شرائط ہوں گی اور دوسروں نے کہا کہ سفارتی تعلقات کا معمول پر آنا بتدریج ہوگا اور یہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ فلسطینی اتھارٹی اصلاحات کے اپنے وعدوں پر کس حد تک عمل کرتی ہے۔بے گھر فلسطینی نبیل جابر نے شک ظاہر کیا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے کوئی ٹھوس پیش رفت ہوگی، کیونکہ کوئی ملک اسرائیل پر دو ریاستی حل ماننے کے لیے کافی دبائو نہیں ڈالے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر آسٹریلیا، کینیڈا اور فرانس جیسے ممالک جو اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والوں میں شامل ہیں فلسطین کو تسلیم بھی کر لیں، تب بھی میرا خیال ہے کہ اسرائیل پر فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کے لیے کوئی سنجیدہ دبائو نہیں ڈالا جائے گا۔ میں یہ بھی امید کرتا ہوں کہ سفارتی طور پر، بڑی عالمی طاقتوں کے اس اعتراف سے جن کا عالمی اثر ہے، ایک ایسا دبائو پیدا ہوگا جو مکمل جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے کے لیے کافی مضبوط ہو۔غزہ کے صحت حکام کے مطابق میں اسرائیل کی جوابی مہم میں 65 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا ہے جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں، قحط پھیلایا اور آبادی کے زیادہ تر حصے کو بار بار بے گھر کیا جارہا ہے۔عباس اور درجنوں فلسطینی عہدیدار وہاں ذاتی طور پر موجود نہیں ہوں گے، امریکا، جو اسرائیل کا قریبی اتحادی ہے، اس نے ویزے جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے اور عباس ویڈیو کے ذریعے خطاب کریں گے۔فلسطینی وزیر خارجہ وارسن آغابیکیان شاہین نے صحافیوں سے کہا تھا کہ دنیا کھل کر کہہ رہی ہے کہ فلسطینی ریاست ہونی چاہیے اور ہمیں اسے حقیقت کا روپ دینا ہے، اب انہیں یہ دکھانا ہے کہ یہ اقدامات کیا ہیں؟ امریکی محکمہ خارجہ نے مغربی ممالک کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے اعلانات کو محض نمائشی اقدامات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ترجیح اسرائیل کی سیکیورٹی، یرغمالیوں کی رہائی اور خطے میں دیرپا امن ہے۔مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ یہ وقت فیصلہ کن ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو دو ریاستی حل ہمیشہ کے لیے دفن ہوسکتا ہے۔دو ریاستی حل کا تصور اقوام متحدہ کے قیام سے قبل بھی موجود تھا۔ 1947 میں برطانیہ نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ کے سامنے رکھا۔اس تنازع کے حل کے لیے ایک فلسطینی عرب ریاست اور ایک یہودی ریاست کے قیام کے ساتھ یروشلم کو بین الاقوامی حیثیت دینے کی تجویز دی گئی۔اسرائیلی جارحیت اور ہٹ دھرمی پر امریکا اور متعدد مغربی ممالک کی حمایت کے باعث مسئلہ فلسطین آج تین دہائیوں بعد بھی حل طلب ہے۔تاہم اب اسرائیل اپنے اتحادی مغربی ممالک کی ایک ایک کرکے حمایت کھوتا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 12 ستمبر کو فرانس اور سعودی عرب کی پیش کردہ نیویارک ڈیکلیریشن کا بھاری اکثریت سے منظور ہونا ہے۔اس ڈیکلیریشن میں کہا گیا کہ مشرق وسطی میں پائیدار امن صرف دو ریاستی حل کے تحت ہی ممکن ہے۔ جس کے بعد سے متعدد مغربی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان بھی کرچکے ہیں۔ قرارداد میں جہاں اسرائیل نے یہودی آبادکاری کے خاتمے، فوجی حملے اور خوراک کی فراہمی کا مطالبہ کیا گیا وہں حماس سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسلحہ فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرکے غزہ پر اپنا حکومتی کنٹرول بھی ختم کردے۔اقوام متحدہ کے مطابق22 ستمبر کے اجلاس کا مقصد تین دہائیوں سے جاری اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کا حل نکالنے میں مدد دینا ہے تاکہ دونوں ریاستیں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر، یروشلم کو مشترکہ دارالحکومت بنا کر امن اور سلامتی کے ساتھ رہ سکیں۔
دو ریاستی حل اورفلسطینی ریاست
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل







