اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے80 ویں اجلاس میں پاکستان کے سیکنڈ سیکرٹری محمد راشد نے بھارت کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے اسے خطے میں دہشتگردی، انسانی حقوق کی پامالی اور ریاستی جبر کا اصل ذمہ دار قرار دے دیا جب کہ پاکستان کے منہ توڑ جواب پر بھارتی مندوب بوکھلاہٹ میں ہال چھوڑ کر چلا گیا۔اپنے خطاب میں سیکنڈ سیکرٹری نے بھارت کے وزیر خارجہ کے بیان کے جواب میں کہا کہ آج ہم نے ایک رکن ملک کی طرف سے وہی پرانی تقاریر سنیں جو قابلِ اندازہ تھیں، پاکستان کو بدنام کرنے کی ایک اور کوشش، جھوٹے بیانیے اور گمراہ کن دعوئوں پر مبنی، مگر ہمیشہ کی طرح حقائق سے بالکل خالی۔پاکستانی سفارتکار نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوے ہزار سے زائد قیمتی جانوں کی قربانی دی ہے یہ قربانیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دنیا بھر کی کوششوں میں ایک مضبوط ستون ہے، جیسا کہ میرے وزیرِاعظم نے اسی فورم پر اجاگر کیا۔سیکنڈ سیکرٹری نے بتایا کہ ہمارے پڑوسی ملک کی جانب سے دہشت گردی کے بارے میں جھوٹے الزامات، دراصل بار بار جھوٹ دہرا کر اسے سچ بنانے کی کوشش ہے مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ ملک خود دہشت گردی کا سب سے بڑا مرتکب ہے؛ یہ خطے کا غاصب اور غنڈہ ہے پورے خطے کو اپنی بالادستی کے عزائم اور انتہا پسندانہ نظریات کی بنیاد پر یرغمال بنائے ہوئے ہے، جو بدقسمتی سے نفرت، تقسیم اور تعصب کو ہوا دیتے ہیں۔اہوں نے تین نکات بیان کیے اول: یہ ملک ان ممالک کی صف میں شامل ہے جو غیرقانونی طور پر علاقوں پر قابض ہیں، عوام کو ظلم و جبر کا نشانہ بناتے ہیں اور بنیادی انسانی حقوق پامال کرتے ہیں۔ اس کی سب سے نمایاں مثال بھارت کے زیرِ قبضہ جموں و کشمیر ہے جہاں ریاستی دہشت گردی روزمرہ کا معمول ہے جن میں ماورائے عدالت قتل، بلاجواز گرفتاریاں، جبری نظربندیاں، جعلی مقابلے اور اجتماعی سزائیں شامل ہیں، جنہیں انسدادِ دہشت گردی کے نام پر ڈھکا جاتا ہے۔دوم: یہی ملک ایک خفیہ اور سرحد پار دہشت گردانہ نیٹ ورک چلاتا ہے اور اپنے پراکسی عناصر کے ذریعے پاکستان کے اندر اور باہر کارروائیاں کرتا ہے۔ اس کا ایک زندہ ثبوت اس کے حاضر سروس بحریہ کے افسر اور خفیہ ایجنسی کے ایجنٹ کمانڈر کلبھوشن یادو کی گرفتاری ہے، جسے پاکستان نے رنگے ہاتھوں دہشت گردی اور تخریب کاری کی وارداتوں میں ملوث پایا۔سوم: ہم نے پہلگام واقعے کے حوالے سے بے سروپا اور ناقابلِ فہم دعوے بھی سنے۔ یہ ایک طے شدہ اسکرپٹ بن چکا ہے کہ کسی بھی واقعے کا الزام فوری طور پر پاکستان پر لگا دیا جائے بغیر کسی ثبوت، منطق یا تحقیقات کے۔ پاکستان نے ایک ذمہ دار ریاست کے طور پر سلامتی کونسل کے دیگر ارکان کے ساتھ مل کر پہلگام واقعے کی مذمت کی۔ مزید یہ کہ پاکستان نے ایک آزاد اور شفاف تحقیقات کی پیشکش کی، جسے فورا رد کر دیا گیا۔ حیرت کی بات نہیں کہ آج تک اس واقعے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔پاکستان کے مندوب محمد راشد نے کہا کہ اس واقعے کو جواز بنا کر، بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے، سات تا دس مئی کے دوران پاکستان پر کھلی جارحیت کی گئی، جس کے نتیجے میں چون معصوم شہری شہید ہوئے، جن میں پندرہ بچے اور تیرہ خواتین شامل تھیں۔ اس کے جواب میں پاکستان نے اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 51 کے تحت اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے بھرپور مگر محتاط جواب دیا۔ یہ کارروائی صرف فوجی اہداف تک محدود رہی اور اس کے نتیجے میں متعدد جنگی طیارے مار گرائے گئے اور جارح ملک کو نمایاں عسکری نقصان اٹھانا پڑا۔پاکستانی سفارتکار نے اجلاس کی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک کا رویہ بین الاقوامی قانون کے لیے نہایت خطرناک نظیر قائم کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا سانچہ ہے جسے وہ ممالک اپناتے ہیں جو عالمی قوانین کی پامالی، سرحد پار قتل و غارت گری، ہمسایوں کو دھمکانے اور کھلی جارحیت کرنے کے خواہاں ہیں۔ ایسی غیرقانونی اور غیرذمہ دارانہ روش کو عالمی برادری ہرگز نظر انداز نہ کرے۔ پاکستان امن کا خواہاں ہے جنوبی ایشیا کے 1.9 ارب عوام جو دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہیں خوشحالی اور استحکام کے مستحق ہیں۔ مگر یہ مقاصد دھمکیوں اور خوف کی فضا میں حاصل نہیں ہو سکتے۔سیکنڈ سیکرٹری محمد راشد نے مزید کہا کہ حقیقی ترقی کے لیے خلوص، باہمی احترام، مکالمہ اور سفارت کاری ضروری ہیں وہ اصول جنہیں پاکستان ہمیشہ مقدم رکھتا آیا ہے۔ بھارت کو بھی بالآخر یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا، اگر وہ واقعی امن کا خواہاں ہے۔پاکستان کے اس مدلل بیان پربھارت بوکھلاہٹ کا شکارہوگیا اور بوکھلاہٹ کے عالم میں ہال چھوڑ گیا۔ بھارت کی قیادت جس انداز میں ہندوتوا کے انتہا پسندانہ نظریے کو ریاستی پالیسی میں ڈھال رہی ہے، وہ نہ صرف خطے کے امن و امان کے لیے تباہ کن ہے بلکہ عالمی اصولوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔جنوبی ایشیا جیسے حساس خطے میں قیامِ امن کے لیے امریکہ نے ایک تعمیری کردار ادا کیا ہے، خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ بندی میں امریکی قیادت کی کوششیں قابلِ قدر ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذاتی دلچسپی اور اعلانِ جنگ بندی نے نہ صرف ایک بڑے انسانی المیے کو روکا بلکہ ایک پرامن مستقبل کی امید بھی دی۔پاکستان، ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے پرامن، منصفانہ اور دیرپا حل کا خواہاں رہا ہے، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق ہو۔یہ مسئلہ محض دو ممالک کے درمیان نہیں، بلکہ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے، جہاں لاکھوں افراد کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔امریکہ اور دیگر عالمی طاقتیں اگر اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، تو جنوبی ایشیا میں پائیدار امن ممکن ہے۔ پاکستان، سفارتی ذرائع اور بین الاقوامی ضابطوں کے دائرے میں رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پرعزم ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے تناظر میں بھارت کا رویہ نہایت غیر سنجیدہ، غیر قانونی اور بین الاقوامی اصولوں کے منافی ہے پانی جیسے بنیادی انسانی حق کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا نہ صرف قابلِ مذمت ہے بلکہ خطے کے لیے انتہائی خطرناک بھی ہے۔ بھارت کی جانب سے دریاں کا پانی روکنا کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ 25 کروڑ سے زائد پاکستانی عوام کا پانی روکنے کی کوشش کھلا اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ بین الاقوامی برادری اس عمل کی حمایت نہیں کرے گی کیونکہ یہ انسانیت کے خلاف ایک ہتھیار ہے۔اکھنڈ بھارت کا بیانیہ اس کی روش ہے یہ اقدام بھارت کی تسلط پسندانہ ذہنیت اور خطے پر بالادستی کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سوچ کا فروغ خطے کے امن کو سبوتاژ کرنے کی ایک خطرناک سازش ہے۔ بھارتی قیادت کا بار بار پاکستان کو اپنے داخلی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا اور مذہبی شدت پسندی کو ہوا دینا دراصل ایک فاشسٹ سوچ کو فروغ دینا ہے، جس کا مقصد عوامی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹانا اور انتخابی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔بلوچستان میں بھارت کے منفی کردار سے کون واقف نہیں وہاں ریاست مخالف سرگرمیوں میں بھارتی خفیہ اداروں کی شمولیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔بے گناہ بچوں، خواتین اور عام شہریوں پر ہونے والے مظالم، اور ان کے پس پردہ عناصر، دراصل انسانیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ وقت آ چکا ہے کہ بھارت کو اس کے شدت پسندانہ اور تخریبی عزائم کے لیے عالمی سطح پر جوابدہ بنایا جائے۔بھارتی جنونی مودی سرکار اپنے توسیع پسندانہ عزائم پایہ تکمیل کو پہنچانے کی جلدی میں درحقیقت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو تاراج کرنے پر تلی بیٹھی ہے اور بھارتی فوجوں نے جس طرح کنٹرول لائن پر بھی بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا تسلسل کے ساتھ سلسلہ برقرار رکھا ہوا ہے جس سے کنٹرول لائن سے ملحقہ سول آبادیاں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں اسکے پیش نظر اپنی سلامتی اور شہریوں کی زندگی کے تحفظ کیلئے پاکستان بھی کوئی قدم اٹھانے پر مجبور ہوسکتا ہے۔ بھارت کی یہی اصل منصوبہ بندی ہے کہ کسی طرح اشتعال دلا کر پاکستان کو آمادہ جنگ کیا جائے اور پھر اس پر جارحیت کا ملبہ ڈال کر اس پر دہشت گرد ملک ہونے کا لیبل لگوایا جائے۔ اس جنونیت میں درحقیقت مودی سرکار آگ اور خون سے کھیل رہی ہے جسے احساس ہونے کے باوجود اس امر کی پروا نہیں کہ اسکی جنونیت پورے کرہ ارض کی تباہی پر منتج ہوسکتی ہے لہذا بھارت امن کیلئے خطرہ ہے اس لئے اسکے جنونی ہاتھ روکے جائیں اور مسئلہ کشمیر حل کرایا جائے۔ کشمیر فلسطین سنکیانگ اور کریمیا کے تنازعات حل ہو جائیں تو دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ایک بار پھر قبل سلامتی کونسل کے اجلاس میں بیرونی تسلط سے مغلوب ہوئے مقبوضہ علاقوں کے عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنے کیلئے پاکستان کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس سے یقینا کشمیری عوام کا حق خودارادیت مزید اجاگر ہوا ہے۔ آج بھارت کشمیریوں پر مظالم کی جس انتہا کو پہنچ چکا ہے عالمی برادری کو انکے حق خودارادیت کیلئے موثر اورکردار ادا کرنا ہوگا اور بھارتی جنونیت کا سدباب کرنا ہوگا بصورت دیگر اسکے ہاتھوں دنیا کی تباہی کی نوبت آنے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔
بھارتی جنونیت اور توسیع پسندانہ عزائم
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل







