گلگت( خصوصی رپورٹ)تنظیم اہلسنت والجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے امیر مولانا قاضی نثار احمد نے کہا ہے کہ ہمیں گلگت کا امن اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور ہم نے اس کا عملی مظاہرہ بھی کیاہے، میں نے گولیاں کھانے اور زخمی ہونے کے باوجود امن کا پیغام دیا جس کے نتیجے میں دہشتگردی کا اتنا بڑا واقعہ ہونے کے باوجود ردعمل میں کہیں پر ایک گولی چلی نہ ایک پتہ ٹوٹا ہم دوسروں کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ بھی آگے بڑھیں اور امن کا ماحول پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کریں انہوں نے بدھ کے روز ہسپتال میں کے پی این سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو دہشت گرد اور علاقے کے وہ عناصر جو علاقے کے اندر دہشت گردی اور فساد پھیلاتے ہیں وہ علاقے اور قوم کے مجرم ہیں اور ان قوم کے مجرموں کے خلاف عوام کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ اتوار کے روز جب میرے اوپر حملہ ہوا تو میں نے گولیاں کھانے اور زخمی ہونے کے باوجوداپنے ساتھ زخمی ہونے والوں کو ہسپتال بجھوا دیا اور خود مدرسے میں پہنچا اور مدرسے کا گیٹ بند کر دیا تاکہ مدرسے کے طلبا احتجاج کرنے بازاروں کا رخ نہ کرسکیں جس کے بعد میں نے علما کو ذمہ داری سونپی کہ وہ مشتعل نوجوانوں کو میرا امن کا پیغام دیں اور انہیں کنٹرول کریں جس کے بعد میں ہسپتال پہنچا ،ہسپتال میں بھی ہر مسلک کے مریض موجود تھے میں نے ان مریضوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے تاکہ کسی کے ساتھ کوئی بدمزگی نہ ہو ،انہوں نے کہا کہ گلگت کی تاریخ میں پہلی بار دہشت گردی کے اس واقعے اور اس میں ملوث دہشت گردوں کے خلاف اور میری حمایت میں نہ صرف نگر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے بلکہ گاہکوچ سکردو، دنیور اور خپلو میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے اس کے علاوہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں نے اس واقعے کی مذمت کی میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے نہ صرف دہشت گردی کے اس واقعے کی مذمت کی بلکہ اس واقعے کے خلاف اور میری حمایت میں احتجاجی مظاہرے کئے، انہوں نے ایک سوال کے جواب کہا کہ دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد بھی میں یہ کہتا ہوں کہ ہم سب ماضی کو بھلا کر ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کریں، اپنے عقائد کو نہ چھوڑیں اوردوسرے کے عقائد کو نہ چھیڑیں ایک دوسرے کے مقدسات کا احترام کریں اس علاقے میں صحابہ کرام کی گستاخی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے ہم کچھ نہیں چاہتے ہم صرف صحابہ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ناموس کا تحفظ چاہتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم سے اچھے اہلسنت اکابرین اور اچھے شیعہ اکابرین نے 2005 میں مشترکہ طور ایک امن معاہدہ کیا پھر 2012 میں ایک ضابطہ اخلاق بنایا جس میں تعلیمی اداروں کے حوالے سے ضابطہ موجود ہے پھر اس ضابطہ اخلاق کو اسمبلی میں باقاعدہ ایکٹ کی شکل میں منظور کیا گیا اس معاہدے اور ضابطہ اخلاق پر عمل کرکے آگے بڑھنا چاہیے مگر اس پر عمل نہ کرنے پر ہمیں شکایت ہے اور اس پر عمل درآمد نہ کرانے پر ہمیں ریاست سے سخت شکوہ ہے ، انہوں نے کہا کہ میں نے گزشتہ ماہ اتحاد چوک میں بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ ریاست ماں ہوتی ہے اور ماں اپنے بچوں کو آپس میں لڑائے تو اس گھر کا کیا حشر ہوگا انہوں نے کہا کہ اس سے قبل جلال آباد اور چھموگڑھ کے مابین ایک تلخی ہوئی تھی اگر اس وقت ریاست اپنی رٹ قائم کرتی تو شاید یہ حادثہ نہ ہوتا آج حکومت کی کمزوری کی وجہ سے ہم پر قاتلانہ حملہ ہوا انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیاہے، جب گلگت بلتستان میں تاجروں نے ٹیکس فری زون کی تحریک شروع کی تو سپریم کونسل کے ممبران جس میں اکثریت نگر کے تاجروں کی تھی حمایت کے لئے میرے پاس آئے میں نے ایک ہی رات میں دیامر اور کوہستان کے علما کو اعتماد میںلیا اور سپریم کونسل کے ساتھ آخر دم تک کھڑا رہا اگرچہ شوریٰ کے تیس فیصد ممبران نے مخالفت کی تھی مگر بحثیت امیر میں نے حمایت کا فیصلہ کیا، انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین کا روز اول سے موقف تھا کہ یہ متنازعہ علاقہ ہے ہمیں متنازعہ علاقے کے حقوق دیے جائیں اور کشمیر کے ساتھ ہماری وحدت قائم کرکے اس علاقے کو ٹیکس فری زون قرار دیا جائے لیکن کچھ ساتھیوں نے کہا کہ ان علاقوں کو صوبہ بنائو ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ یہ صوبہ نہیں بن سکتا اور اگر صوبہ بن بھی گیا تو یہ صوبہ نہیں صوبے جیسا ہوگا صوبہ نہیں ہوگا صوبہ نما ہوگا آج صوبے کا جو حشر ہے وہ سب کے سامنے ہے انہوں نے کہا کہ گلگت کی ایک شناخت تھی شمالی علاقہ جات ہم اس شناخت کے حمایتی رہے ہیں اور ناردرن ایریاز کی نیچرل شناخت کو از سر نو زندہ کرنا چاہتے ہیں ۔ہم اسے گینگسٹرز سے پاک گالیوں، گولیوں سے پا ک نو ابیوز لینڈ بنانا چاہتے ہیں۔
امن جان سے زیادہ عزیز،ماضی بھلاکر ایک دوسرے کا احترام کریں،قاضی نثار
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل







